بیساکھی کا تہوار
بیساکھی کے دن آئے اور بیتے دنوں کی یاد ساتھ لائے ۔جب بھی گندم کی کٹائی کے دن آتے ہیں گزرے وقتوں کی یادیں تازہ کر جاتے ہیں۔ سب لوگ مل کر خوشیوں کے گیت گاتے اور بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے اور کھیتوں کھلیانوں میں ایک جشن کا سا سماں ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی کیا دن ہوا کرتے تھے جب گھر کچے، لوگ سچے اوردلوں کے اچھے ہوا کرتے تھے۔لوگ تمام رشتوں ناطوں اور قومیت پرستی سے بالا تر ہو کر ایک انسانیت میں بندھ کر ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے ۔
گھر جاتے ہوئے راستے میں بہت سے کھیتوں سے بس گزر کر جاتی ہے تو اس بار گھر جاتے ہوئے بہت دلکش منظر دیکھنے کو ملا گندم کی فصل پک کر تیار ہو چکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ دور دور تک سونے کا سمندر بہہ رہا ہو۔محنت کش کسانوں کے لیے تو بھئی سونے کا سمندر ہی ہے جنہوں نے اتنی محنت سے اسکی دیکھ بھال کی اور واقعتایہ انکے لئے انکی محنت کے سونے کا سمندر ہی توہے۔ جیساکہ آج کل گندم کی فصل پک کر تیا ہو چکی ہے اور اکثر مقامات پر کٹائی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔میں نے دیکھا کہ ایک دیوقامد مشین (جسے عام طور پر تھریشر کہا جاتا ہے) کی مدد سے گندم کی فصل کی کٹائی کے ساتھ ساتھ دانے الگ کیے جا رہے تھے ۔ یہ مرحلہ دیکھ کر مجھے پُرانے وقتوںمیں کی جانے والی گندم کی کٹائی یاد آگئی۔جب گندم کی فصل کی کٹائی کے لیے مشینوں کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔جس سے شاید آج کی نئی نسل آگاہ نہ ہو۔
پہلے وقتوں میں گندم کی کٹائی کا آغاز سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔لوگ ہاتھوں میں میں درانتی پکڑے مٹھیاں بھر بھر کر گندم کے سٹے کاٹے اور کچھ لوگ اُن کٹے ہوئے سِٹوں کوگٹھوں کی صورت میں باندھتے جاتے اورساتھ میں کھڑا ڈھول بجانے والا ڈھولی،ڈھول کی تھاپ سے لوگوں کا جوش و ولولہ دوگنا کرتا جاتا تھااور کچھ منچلے بچے سخت گرمی کی پرواہ کئے بغیر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑاڈالا کرتے تھے اور دوسری جانب گائوں کی خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہوا کرتی تھیں وہ کھیتوں میں کام کرنے والوں کے لیے دُوپہر کے کھانے کا انتظام کیا کرتی تھیں۔جیسے ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تمام لوگ درختوں کی گھنی چھائوں میں بیٹھ کر دوپہر کے کھانے کا مزہ لیتے اور تازہ چاٹی کی لسی کامزہ لیتے (بھئی اگر کھانے کے ساتھ چاٹی کی لسی ہو تو کھانے کا مزہ ہی دوبالاہو جاتا ہے)اور شام تک کھیت سے ساری گندم کی فصل کاٹ کر ڈھیر لگا دیتے تھے۔پھر سب لوگ مل کر ان کٹے ہوئے سِٹوں کو ڈرم یا سخت چیز پر مار مار کر سِٹوں سے گندم کے دانے الگ کیا کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ترقی تو کی ہے جسے ہم لوگ دیکھتے بھی ہیں۔جہاں ایک کھیت کی فصل کاٹنے میں سارا دن لگتا تھا وہیں آج تھریشر کی مدد سے کئی کھیتوں کی فصل کاٹ کر دانے الگ کر نے کے لیے محض چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔لیکن دوسری جانے ہم نے اس ترقی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کھویا بھی ہے جیسا کہ پہلے گندم کی کٹائی کے وقت جشن کا سماں ہوتا تھا سب لوگ مل جُل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مل بیٹھنے کا ایک بہانہ تھا ، بھائی چارہ تھا ۔ لیکن آج کل ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

پہلے وقتوں میں گندم کی کٹائی کا آغاز سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔لوگ ہاتھوں میں میں درانتی پکڑے مٹھیاں بھر بھر کر گندم کے سٹے کاٹے اور کچھ لوگ اُن کٹے ہوئے سِٹوں کوگٹھوں کی صورت میں باندھتے جاتے اورساتھ میں کھڑا ڈھول بجانے والا ڈھولی،ڈھول کی تھاپ سے لوگوں کا جوش و ولولہ دوگنا کرتا جاتا تھااور کچھ منچلے بچے سخت گرمی کی پرواہ کئے بغیر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑاڈالا کرتے تھے اور دوسری جانب گائوں کی خواتین بھی کسی سے کم نہیں ہوا کرتی تھیں وہ کھیتوں میں کام کرنے والوں کے لیے دُوپہر کے کھانے کا انتظام کیا کرتی تھیں۔جیسے ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تمام لوگ درختوں کی گھنی چھائوں میں بیٹھ کر دوپہر کے کھانے کا مزہ لیتے اور تازہ چاٹی کی لسی کامزہ لیتے (بھئی اگر کھانے کے ساتھ چاٹی کی لسی ہو تو کھانے کا مزہ ہی دوبالاہو جاتا ہے)اور شام تک کھیت سے ساری گندم کی فصل کاٹ کر ڈھیر لگا دیتے تھے۔پھر سب لوگ مل کر ان کٹے ہوئے سِٹوں کو ڈرم یا سخت چیز پر مار مار کر سِٹوں سے گندم کے دانے الگ کیا کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ترقی تو کی ہے جسے ہم لوگ دیکھتے بھی ہیں۔جہاں ایک کھیت کی فصل کاٹنے میں سارا دن لگتا تھا وہیں آج تھریشر کی مدد سے کئی کھیتوں کی فصل کاٹ کر دانے الگ کر نے کے لیے محض چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔لیکن دوسری جانے ہم نے اس ترقی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کھویا بھی ہے جیسا کہ پہلے گندم کی کٹائی کے وقت جشن کا سماں ہوتا تھا سب لوگ مل جُل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مل بیٹھنے کا ایک بہانہ تھا ، بھائی چارہ تھا ۔ لیکن آج کل ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment