دیہاتوں میں تعلیمی مسائل اور ان کا حل
اقراء باسم ربک الذی خلق۔
''پڑھو ( اے نبی ۖ) اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا''۔تعلیم کسی بھی معاشرے اور ملک کی ترقی میں ایک بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ترقی کرنا ناممکن ہے۔ دیہات کی سطح پر کافی سارے مسائل ہیں جن میں تعلیم یافتہ افراد کا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ معاشرے کے پسماندہ ہونے کی سب سے بڑی جڑ ناخواندگی ہے۔ ناخواندگی کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیںان میں سے غربت، چائلڈ لیبر، سکول اور پڑھے لکھے افراد کا موجود نہ ہونا شامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی تعلیم جیسے زیور سے دور ہیں۔ معاشرے کی ترقی میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ نپولین نے کہا تھا کہ ''تم مجھے پڑھی لکھی مائیںدو میں آپکو ترقی یافتہ قوم دوںگا'' ایک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوں کی تربیت بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔ ماں کی گود تعلیم کی پہلی درسگاہ شمارہوتی ہے۔ خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے میڈیا کا سب سے زیادہ بہتر اور مثبت کردارادا کرسکتا ہے۔ لیکن دیہاتوں کی سطح پر میڈیا کے ذرائع محدود اور دستیابی کے کم ہونے کے سبب لوگوں میں تعلیم کا شعور بہت کم ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ دیہات جیسے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی مہم چلائے اور بچوں اور بچیوں کو سکول میں داخل کروانے کے لیے قائل کرے اور تعلیم عام کرنے کی عوام سے اپیل کرے۔ نیز این ۔جی۔اوز کو پسماندہ علاقوں میں امداد کے لیے اطلاع فراہم کرے۔ جہاں سکول موجود نہیں وہاں پر غیر رسمی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ فی سبیل اللہ غریب بچوں کیتعلیم کا بندوبست کیا جائے۔
ناخواندگی کو مٹانے کے لیے پڑھے لکھے افراد اور خصوصاً طالب علم اپنے معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جو کہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد کم از کم ایک بچے کی بنیادی تعلیم کا ذمہ اٹھائے تو یہ اس کی اور اس کے معاشرے کی ترقی ہے اور نیکی بھی ہے۔ جن علاقوں کے نزدیک سکول موجود ہیں وہاں پر بچوں کے سکول آنے جانے کے لیے ویگن یا رکشہ کی سہولت فراہم کی جائے۔ دیہاتوں میں مسجدوں میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جائے۔ کسی ایک استاد یا پڑھے لکھے فرد کو موجودہ مسجد میں بچوں کو سبق پڑھانے کے لیے تعینات کیا جائے۔ اگر کسی گھر میں کوئی پڑھی لکھی عورت موجود ہے تو بچیوں کو اس کے پاس بنیادی تعلیم کے لیے بھیجیں۔ ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے فارغ وقت میں یا تھوڑا وقت نکال کر اپنے معاشرے کے بچوں کو گروپ کی شکل میں بنیادی تعلیم کا سبق پڑھائے۔ بڑے بڑے زمینداروں اور ملازمت پیشہ افراد کو چاہیے کہ وہ کچھ پیسے غریب بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈ کی شکل میں اکٹھا کریں اور بچوں کو کتابیں لے کر دیں۔ ایسے پسماندہ علاقے جہاں بچوں کو سارا دن مزدوری اور کام پر پیسے کمانے کے لیے بھیجا جاتا ہے ایسے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دلوائیں جس سے وہ کام کو سیکھ کر نہ صرف کام کو اچھے طریقے سے سرانجام سے سکیں گے بلکہ پیسے بھی زیادہ کما سکیں گے۔100 یا 200 روپے کی بچائے 500 سے 1000 روپے تک روزانہ کما سکتے ہیں۔ حکومت دیہاتوں کی سطح پر تعلیم کے لیے واضح پالیسی قائم کرے اور زیاد ہ سے زیادہ توجہ فراہم کرے۔ غریب اور اہل بچوں کو نہ صرف بنیادی تعلیم کے لیے وظائف اور امداد فراہم کی جائے بلکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی مالی امداد فراہم کی جائے۔ تاکہ والدین کی مالی پریشانی میں کمی اور بچوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ تعلیم ہر بچے اور بچی کا حق ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ حق ضرور دیں۔ خدایا آرزو میری یہی ہے کہ میرا نور بصورت عام کر دے۔
تحریر: شکیل احمد
Comments
Post a Comment