انتظار حسین ۔۔۔۔اِک نایاب شخصیت

اُردو ادب کا ایک ایسا آخری آدمی جو کہ دن کو داستانوں او ر افسانوں میں بیاں کرنے والا ادب کی اس بستی کے گلی کوچے میں پھرتا ہوا اُردو ادب کی دُنیا کو شہرِافسوس میں بدل کر ایسا گیا کہ جاتے ہی اُردو ادب کے آسمان پر موجود چاند کوگرہن لگ گیااور ایسا گرہن جو کہ کبھی ختم نہ ہو پائے گا۔
انتظار حسین صاحب کی ایک نایاب فوٹو...
ماہ فروری اُردو ادب پر بہت ہی بھاری ثابت ہوا کیونکہ اس ماہ کے آغاز میں ہی اُردو ادب کے نامور ادیب، افسانہ وناول نگار جناب انتظار حسین خالی پنجرہ چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔( انا لیلہِ واناا لیہ راجعون)۔  انکے جانے کے باعث اُردو ادب کی تاریخ میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا ۔
انتظار حسین1923کو برصغیر کے بلند شہر میں پیدا ہوئے اور میرٹھ کالج سے بی اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کر کے لاہور میں سکونت اختیا ر کرلی ۔ اُردو لیٹریچر میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور صحافت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے روزنامہ مشرق سے ''لاہورنامہ '' کے عنوان سے کالم کا سلسہ جاری کیا جو کہ قارئین میں بہت مقبول ہوا۔اسکے علاوہ وہ ریڈیو کے لیے بھی کالم لکھتے رہے لیکن افسانہ و ناول نگاری میں تو کوئی بھی انکا ہم پلہ نہیں ہے۔جب انکا پہلا افسانوی مجموعہ 1953کو '' گلی کُوچے '' شائع ہوا تو اُردو ادب کی تاریخ میں ایک نئے باب انتظار حسین کا اضافہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے انتظار حسین کے تحریر کردہ ناول اور افسانوں کی ایک لمبی فہرست بنتی چلی گئی۔ جن میں آگے سمندر ہے ، بستی، چاند گرہن،دن، آخری آدمی، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، شہر افسوس، کچھوے،کنکرے گلی کوچے اور آپ بیتیوں میں چراغوں کا دُھواں اور دلی تھا جس کا نام  سر فہرست ہیں۔
جب ہم انتظار حسین کے ناول یا داستانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی تحریروں میںپچھتاوے اور یاد ماضی سے محبت ، ماضی پرستی اور ماضی پر نوحہ خوانی بہت واضح نظرآتی ہے۔بعض اوقات مطالعہ کے دوران ایسا کھوتے ہیں کہ خود کو ماضی کے کسی قصے کا حصہ پاتے ہیں تو کہیں خود کو گمنام شخص کی مانند جنگل و صحرا میں تن و تنہا پاتے ہیں اور کہیں ایک بنجارے کی طرح خود کو شہروں کے گلی کوچوں میں بھٹکتا پاتے ہیں۔انکی تحریروں میں عجب قسم کی کشش پائی جاتی ہے جیسے چاندنی راتوں میں کوئی پرانے عمارت اپنی طرف متوجہ کر رہی ہو۔لیکن اُنکی تمام تر ماضی پرستی اور مستقبل سے فرار اور انکار کے باوجود انکی تحریروں میں ایک عجیب حسن بھی نظر آتا ہے۔ انکے افسانوں کا اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے۔
انکی تحریروں سے لگتا ہے کہ انہیں ظاہری زندگی کی بناوٹ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی البتہ باطن کی حالت ِدرویش کا ضرور خیال رکھتے تھے یہی باطن کی غوطہ خوری انتظار حسین کی پہچان تھی۔ لیکن وہ اس بات کا کو فکری اور نظریاتی پسماندی کا نام دیتے بھی نظر آتے تھے۔ اسی لیے وہ فرد کے انفرادی جدوجہد کو بھی بے معنی قرار دیتے تھے۔یہی وہ موضوعاتی مقام تھاجہاں پر انتظار حسین افسانے کے پیش منظر میں داخل ہوتے نظر آتے ہیں۔
 انتظار حسین کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔فرانس حکومت کی جانب سے ستمبر2014 کو  '' آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز'' سے  نوازا گیا۔اسکے علاوہ انتظار حسین کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام  '' مین بُکر پرائز '' کی لِسٹ میں شامل کیا گیااور اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑے ادبی اعزاز  '' کمال فن ایوارڈ '' سے نوازا۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم
اے ہم نفس وہ خواب ہیں ہم

اے درد بتا کچھ تو ہی پتا
اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا

ہم میں ہے دلِ بے تاب نہیں
یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کا مارا
خاموش کھڑا ہوں ساحل پر

دریائے محبت کہتا ہے
آ کچھ بھی نہیں پا یا ب ہیں ہم

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں
منزل پے پہنچتے ہیں ، دو  ایک

اے اہل زمانہ قدر کرو
نایاب نہ ہوں ، کمیاب ہیں ہم

Comments

Popular Posts