ہم نے سیکھی ڈرائیونگ

File Photo
جب ہمارے والد محترم نے نئی کار خریدی تو دن رات ہمارے ذہن و دل میں ایک ہی جذبہ گامزن ہو گیا کہ ہم نے بہترین ڈرائیونگ سیکھنی ہے۔ ہم جاگتی آنکھوں سے ہر لمحہ اپنے آپ کو سڑک پر کار دوڑاتے تصور کرتے ڈرئیونگ سیکھنا اور کار ڈرائیوکرنا ہمارے لیے ایک سنہری سپنا بن گیا۔ اس سپنے کو مزید سنہرا ہمارے عزیز رشتہ دار اور ملنے جلنے والے کردیتے کہ ڈرائیونگ سیکھ لو، تم میں بس ایک یہی کمی ہے پھر تم ہی تو پُر اعتماد ہستی ہو ۔ ہماری گردن فخر سے اکڑ جاتی آخر کو ہم ایک پُراعتماد اور باوقار شخصیت کے مالک جو ٹھرے۔ہم انہی خوابوں کی دنیا میں گم تھے کہ ہماری کزن نے ہمیں ایک خاتون انسٹرکٹر کا نمبر دیا کہ ان سے سیکھ لو بہت اچھا سیکھاتی ہیںتم کبھی بھی ڈرائیونگ کرتی پزل نہ ہو گی۔ہم نے اُس سے یوں نمبر لیا جیسے کوئی لڑکا کسی حسین لڑکی کا نمبر لے کرخود کو ہوائوں میں اُڑتا محسوس کرتا ہے۔گھر آتے ہی اُن خاتون کو کال کی۔ انہوں نے فورََاحامی بھر لی۔انکی محبت بھرے لہجے پر ابھی ہم فدا ہو ہی رہے تھے کہ اچانک انہوں نے ہمیں اپنی شرائط اور فیس بتا کر ہمارے اوسان خطا کر دیئے۔ ہم نے مری مری آواز میں کہا میڈم اتنی زیادہ فیس، انہوں نے پھر اُسی پیار بھرے انداز میں کہا !چندا تمھارا گھر بھی تو اتنی دور ہے۔ گاڑی پیٹرول پر ہے ہم نے فوراََ اس خوف سے ہامی بھر لی، مبارا وہ خفا ہو کر فون نہ بند کر دیں اور ہم ڈرائیونگ سیکھنے سے محروم نہ رہ جائیں۔
اگلے دن سارا وقت ہم حسین خوابوں میں کھوئے کھوئے رہے۔کالج میں ہر ایک نے ہماری اس کیفیت کو محسوس کیا۔ ہم نے خوشی خوشی بتایا کہ آج سے ہماری زندگی کا نیا باب کھلنے کو ہے ہم آج ڈرائیونگ سیکھنے جا رہے ہیں۔ہماری چند ایک کولیگ نے ہمیں ہنس کر دیکھا ، مرد کولیگ حضرات نے ہمیں ڈرایا کہ ناں ناںڈرائیونگ مت سیکھو۔خواتین بزدل ہوتی ہیںبہت حادثات کرتی ہیں۔ مگرہم اس وقت اپنے میں اتنے خوش اور مگن تھے کہ ہم نے قطعاَ َ  بُرا نہ مانااور مسکرا کر کہا کہ کامیاب اور پُراعتماد لوگوں سے دنیا یونہی جلا کرتی ہے۔ گھر آکر ہم بڑی محنت سے تیار ہوئے اور میڈم کے آنے کا بے تابی سے انتظار کرنے لگے۔ آخر کار وہ مبارک گھڑ ی آہی گئی جب وہ محترم خاتون ہمارے دروازے پر آپہنچیں۔ انہوں نے ہارن دیا ہم خوشی خوشی باہر نکلے تو کار کو دیکھ کر چکرا سے گئے۔ایک پرانی کھٹارا سی ایف ایکس سامنے کھڑی تھی اس میں ایک ادھیڑ عمر خاتون بشکل جلاد تشریف فرما تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی وہ شروع ہو گئیں۔ کیا نام ہے؟ فیس لائی ہو؟ اپنا اتا پتا اس ڈائری میں لکھواور کل سے اس وقت تیا رہنا۔ نکمی شاگرد بننے کی کوشش مت کرنا جلدسیکھنے کی کوشش کرنا اگر نکمی شاگرد بنیں تو میں بہت بُرا حال کروں گی اس کے بعد انہوں نے گاڑی کے پُرزوں کے نام یاد کرانے شروع کر دیے ہم نے اُن کو اُنکے اصل روپ و رویے میں دیکھا تو ہمارے سارے خواب چکنا چور ہوتے محسوس ہوئے۔ رفتہ رفتہ ہمیں یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ وہی میٹرک جماعت کی ہماری میتھ کی اُستانی ہیں جن کے خوف سے ہم کانپا کرتے تھے۔پہلے دن ہی ہمارے سارے ارمان خاک میں مل گئے۔
ہمیں ڈرائیونگ کرتے اتنی ڈانٹ پڑتی کہ ہم خوف سے کانپا کرتے ہم اس منحوس وقت کو کوستے جب ہمیں ڈرائیونگ کا شوق چڑھا۔جوں ہی ڈرائیونگ کا ٹائم آتا ہم پوری دل و جان سے دعا کرتے کہ خدا کرے کہ میڈم کو کوئی مسئلہ پڑجائے یا انکی گاڑی خراب ہو جائے اور ہماری چھٹی ہو جائے۔ ہم انکے پنجہ خونیں میں بُری طرح جکڑے ہوئے تھے ۔ اُن کی ہدایت تھی کہ ڈرائیو کرتے ہوئے بولتی رہو کہ اب میں کیا کررہی ہوں؟ اکثر وہ سوال کرتی اب میں کہاں جا رہی ہوں؟ کونسے گئیر میں ہوں؟ جب وہ یہ سوال کرتیں تو اکثر ہم بھول جاتے کہ ہم نے کونسا گئیر لگایا ۔ وہ پوچھتی تو ہم فرسٹ گئیر میں ہوتے تو سیکنڈ بتاتے اور سیکنڈ میں ہوتے تو تھرڈ بتاتے اس پر وہ بے حد خفا ہوتیں۔اکثر ہم عالم ِخاموشی میں ڈرائیو کررہے ہوتے تو وہ گرج دار آوازمیں پوچھتیں کہ یہ گاڑی میں آوازکیوں آرہی ہے؟ہم لاجواب ہو کر سوری کہتے تو وہ بھڑک اُٹھتیں۔بیوقوف لڑکی تم نے گئیر کم کردیا اور سپیڈزیادہ اس لیے گاڑی آواز دے رہی ہے۔ اکثر وہ ہمیں حکم دیتیں رُکو ہم گاڑی چلاتے چلاتے یک دم روک دیتے اور گاڑی پوری دشمنی نکالتے ہوئے بند ہوجاتی ہم خوفزدہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھتے اور متوقع ڈانٹ کی پوری ڈوز ہمیں دی جاتی۔
غرض ان پندرہ دنوں میں ہماری ذہنی حالت یہ ہو گئی کہ راتوں کو نیند میں با آواز بلند پکارا کرتے ہاں میڈم میں نے سیکنڈ گئیر لگایا۔ بس اب رش ہورہا ہے اور میں فرسٹ گئیر میں جا رہی ہوں۔بچے ہم پر ہنستے اور  ہم ان پندرہ دنوںکے خاتمے کی دعا کرتے ۔ پندرہ دنوں کے بعد ہم نے جب بھی گاڑی نکالی اُن کی آوازیں ڈانٹ ڈپٹ کی صورت اتنی ہمارے کانوں میں گونجتیں کہ ہم نے گاڑی کو ہاتھ لگانا ہی چھوڑ دیا۔
ہم ڈرائیونگ کریں نہ کریں ہمیں یہ فخر تو حاصل ہے کہ ہمیں ڈرائیونگ بہت اچھی طرح آتی ہے۔ اصل میں ہم تو صحت مند رہنے کے لیے پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو صاحبو! خوش باش اور صحت مند رہنا ہے تو پیدل چلیں اور گارڑی سے اور گاڑی سکھانے والوں سے دور رہیں.

Comments