شعبہ تعلیم اور اساتذہ

تحریر محمد نعیم 
آج کل سکولوں میں ٹیچرز کی بھرتیوں کے مختلف ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں۔ جس کی بنیاد پر ان اساتذہ کو سکولوں میں آنے والے قوم کے معماروں کو پڑھانے کا موقع دیا جائے گا۔ یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ ملک میں شرح تعلیم کو بڑھانے، ناخواندگی کو کم کرنے اور نچلی سطح پر ایسے تعلیمی ادارے جہاں وڈیروں نے اپنے بیٹھکیں بنائی ہوئی ہیںانکو آباد کرنے کے لیے تدابیر کی جارہی ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی قابل تحسین بات ہے کہ جہاں ایک جانب ملک کی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے وہیں شہروں سے مِیلوں دور بسنے والے ایسے بچوں کے علم کی پیاس بھی بجھائیں گے جو کہ تعلیم تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن غربت ے باعث وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔۔۔
استاد کا مقام ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتا تھا''میرے مطابق تو ابھی بھی استاد کا مقام بہت اعلیٰ ہے۔ استاد کو روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے تو دوسری جانب اسی شعبے کو پیغمبرانہ شعبے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔'' لیکن آنے والی نسلیں شاید سمجھیں گی کہ استاد کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہے۔ کیونکہ آج کل جو کچھ اساتذہ کی خدمات ہیں شاید ہی آنے والی نسلیں انکی خدمات کو سراہیں۔۔۔ پہلے اساتذہ اپنے پیشے اور طالب علموں سے مخلص ہوا کرتے تھے ۔ درسگاہ میںاپنے فرائض بخوبی سے سرانجام دیا کرتے تھے۔ اگر کسی بچے کو کسی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو وہ اپنے استاد سے کسی بھی وقت جاکر بغیر کسی معاوضے کے پوچھ سکتا تھا۔طلبہ اپنے اساتذہ کا احترام کرتے تھے اور زندگی کے میدانوں میں بہت ترقی کرتے چلے جاتے تھے اور ہمیشہ اپنے اساتذہ کو یادبھی رکھتے تھے۔
 آج استاد ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو کہ محض پیسوں کی غرض سے اپنے پاس آنے والے طالب علموں کو پڑھاتا ہے۔ اگر پیسہ نہیں تو تعلیم بھی نہیں۔۔۔ ویسے تو ہمارے معاشرے میں بہت سے تعلیمی ادارے ہیں لیکن گذشتہ چند سالوں سے شعبہ تعلیم سے منسلک چندلوگوں نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی ہے جسے شاید اکیڈمی اور وہاں پر دی جانے والی تعلیم کو ٹیوشن کہا جاتا ہے۔
جی ہاں وہی تعلیم ۔۔۔ جسے حاصل کرنے کے لیے سکول یا کالج سمیت آپ کو ان اساتذہ کی بنائے گئے ذاتی ادارے یعنی کہ اکیڈمی کا بھی رخ کرنا پڑتا ہے۔لیکن رُکیے اس جانب رُخ کرنے سے پہلے اس بات کا احاطہ کرنا لازمی ہے کہ کیا آپ کے والدین کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ آپکو ہر کتاب کی تعلیم دلانے کے عوض سینکڑوں روپے ماہانہ پانی کی طرح بہا سکیں ۔ کیونکہ یہ ادارے بغیر روپوں کے شاید آپ کو اندر آنے کی بھی اجازت نہ دیں۔
 لیکن اب بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو اپنے اساتذہ کو یاد رکھتے ہیںایسا صرف تعلیمی شعبے سے منسلک چند لوگوں کے باعث جو اس شعبے کی قدر کو نہیں جانتے۔ ان کے لیے تعلیم کا شعبہ ایک پیسے کمانے کی ایک فیکٹری ہے۔۔۔ اگر ہم اپنے ارد گردنظر گھمائیں تو سکول کم اوراکیڈمیاں زیادہ ملیں گے۔ آج کل ہمارے سکول اتنے آباد نہیںجتنی یہ اکیڈمیاں آباد ہیں۔افسوس کی  بات ہے کہ دورِحاضر میںسکول میں داخلہ لیتے ہی والدین کو بچے کے لیے شام کے اوقات میںاکیڈمی کے لیے کہا جاتا ہے۔۔۔اور ان اکیڈمیوں کی اتنی رونقیں ان نام نہاد اساتذہ کی مرہون منت ہیں جو کہ میرے خیال سے اس پیشے کی قدر و قیمت سے شاید واقف نہیں ہیں۔
اکثر یہی ٹیوشن مافیہ اساتذہ یہ تذکرہ کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ آج کل کے طالبعلم بہت ہی بے ادب ہیں۔ استاد کی عزت تو شاید بھول ہی گئے ہیں ۔بھئی آج بھی وہی طالب علم ہیںجو پہلے ہوتے تھے۔ لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ انکو مخلص استاد ملتے تھے جو کہ انکی گاہے بگاہے رہنمائی کرتے رہتے تھے اوربغیر کسی لالچ کے اپنے بچوں کی مانند پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن آج کے اساتذہ کو یہ نہیں معلوم کہ وہ اپنے اس شعبے کو اصل مقصد سے کتنی دور لے جاچکے ہیں۔ 
میری ہمارے ایسے تمام اساتذہ ''جو کہ پہلے سے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں اور جو اب نئے بھرتی ہو رہے ہیں ''سے گزارش ہے کہ شعبہ تعلیم ایک باعزت پیشہ ہے نہ کہ پیسے کمانے کی کوئی فیکٹری ۔ اکثر سکولوں کی دیواروں پر لکھا ہوتا ہے اور طالبعلموں کو بتایا بھی جاتا ہے کہ ''با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب'' لیکن کیا آج کے چند نام نہاد اساتذہ ان اکیڈمیوں سے حاصل ہونے والی کمائی کے نشے میں اپنے اس پیغمبری شعبے کی بے ادبی نہیں کر رہے؟ کیا یہ اپنے روحانی بچوںکو بھی ویسے ہی سمجھ کر پڑھاتے ہیں جیسے وہ اپنے حقیقی بچوں کو سمجھاتے ، سیکھاتے اور پڑھاتے ہیں ؟

Comments