پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اسد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 11برس بیت گئے


انہیں موسیقی کا فن اپنے والد امانت علی خان سے ورثے میں ملا لیکن انھوں نے اپنی شناخت علیحدہ سے منوائی


Asad Amant Ali Khan
لاہور(محمد نعیم سے)کلاسیکل موسیقی کی پہچان پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اسد امانت علی خان کی 11ویں برسی آج منائی جا رہی ہے ۔ نیم کلاسیکل گائیکی کے نمائندہ گلوکار اسد امانت علی خان25ستمبر 1955کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسد امانت علی خان، استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور اورشفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔ان کا تعلق موسیقی کے معروف پٹیالہ گھرانے سے تھا۔انہیں موسیقی کا فن اپنے والد امانت علی خان سے ورثے میں ملا لیکن انھوں نے اپنی شناخت علیحدہ سے منوائی۔



اسد امانت علی خان نے اپنی گائیگی کا آغاز 10 سال کی عمر سے کیا اور ایف اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موسیقی کو ہی پیشہ بنایا۔ اسد امانت علی خان نے کلاسیکل موسیقی سے تعلق رکھنے والے خاندان میں چار چاند لگائے۔ ان کی غزلیں اور کلاسیکل راگ کو عالمی شہرت ملی۔اپنے والد استاد امانت علی کی وفات کے بعد انشا جی کی لکھی اور استاد امانت کی گائی غزل ”انشا جی اٹھو اب کوچ کرو“ گانے کے بعد اسد علی خان کو اولین شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔انہیں خاص طور” عمراں لنگھیاں پباں بھار“ اصل شناخت ہوئی اور اس کے بعد وہ انتقال تک گائیکی کے ایک درخشاں ستارے رہے۔



اسد امانت نے غزل کے علاوہ فلمی گیت، ٹھمری، لوک گیت اور دیگر اصناف کی گائیکی کے علاوہ اپنے گھرانے کی پہچان کلاسیکی موسیقی میں بھی نام پیدا کیا۔انہوں نے اپنی گلوکاری کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے کی اور پھر ٹیلی ویژن پر متعدد محافل موسیقی میں شرکت کرنے کے علاوہ ملک بھر میں اور بیرون ملک اپنی آواز کا جادو جگایا۔پٹیالہ گھرانے میں اسد امانت علی کے بزرگوں میں انکے والد استاد امانت علی خان اور چچا استاد فتح علی خان اور استاد حامد علی خان کے علاوہ دوسرے کلاسیکی موسیقی کے بڑے نامور استاد بڑے فتح علی خان، استاد عاشق علی خان اور استاد اختر حسین ہیں اور اسد امانت علی بھی انہیں عظیم گلوکاروں کے فن کے امین تھے۔اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ چچا بھتیجے نے پاکستان کے علاوہ بھارتی فلموں میں بھی موسیقی کا جادو جگایا۔ اسد امانت نے کئی فلموں کے لیے بھی نغمات ریکارڈ کروائے اور ان کے کچھ نغمے جو مقبول ہوئے ان میں فلم ” ابھی تو میں جوان ہوں “کا ”کیا گلبدنی کیا گلبدنی، کیا گلبدنی ہے“ اور فلم ” آواز“ کا ”تو مرے پیار کا گیت ہے“ اور دیگر متعدد نغمے شامل ہیں۔ انہیں صدارتی ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تاہم ایوارڈ کے فوری بعد ہی ان کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ علاج کیلئے لندن چلے گئے۔ 8 اپریل 2007کو 52برس کی عمر میں ان کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔اسد امانت علی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی گائیکی کے روپ میں طویل عرصے تک زندہ رہیں گے۔

Comments