کالج آف فائن آرٹس


                کا لج آف فائن آرٹس اینڈ دڈیزائین اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے زیراہتمام منعقد کی جانے والی سالانہ نمائش کا افتتاح پروفیسر ڈاکٹر رائو محمد افضل خان وائس چانسلراسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور  پروفیسرساجدہ ونڈل سابق پرنسپل نیشنل کالج آف آرٹس لاہور نے مشترکہ طور پر کیا ۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر رائو محمد افضل خان نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکے فن پاروں کی سالانہ نمائش جنوبی پنجاب میں سب سے بڑی آرٹ کی نمائش بن چکی ہے۔اس موقع پر پرنسپل کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر،ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ڈاکٹر میمونہ غنی، ڈین فیکلٹی آف سائنس پروفیسر ڈاکٹرمحمد اصغر ہاشمی ،اساتذہ کرام اور معززین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نمائش میں طلباء و طلبات کی تخلیق کردہ پینٹیگز، پرنٹ میکنگ،منی ایچر،سکلپچر،گرافک اور ٹیکسٹائل ڈیزائن کے دیدہ ذیب نمونے پیش کئے گئے ۔اس نمائش کے مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی یہ سالانہ نمائش آرٹ کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔اور اس نمائش کی خاص بات خطہ بہاولپور اور چولستان کے کلچر کو نمایاں انداز میں اُجاگر کرتا ہے۔جو اس نمائش کو انفرادیت عطاکرتی ہے۔ طلباء وطلبات کی تخلیقی صلاحیتیں اور نت نئے انداز بھی اس نمائش کا خاص پہلو ہیں۔
              فن پاروں کی نمائش انسان کے مردا ،افسردااور بیکار اعصاب کو جگانے اور جلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس نمائش نے پیش کرداہ فن پارے طلباء وطالبات کے باطنی حسن کا منہ بولتا سبوت ہیں۔یہ نمائش صرف فن پاروں کے خدو خال ہی نہیں بلکہ فنکاروں کی شخصیت کے وہ تمام پہلو نمایاں کرتی ہے جو چونکا دینے والی بات ہے۔ فن پارون سے فنکار کی شخصیت ،ان کے سوچنے کا انداز اورکیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ پنٹنگ کے ذریعے ماضی کی روایات اور معاشرے کی موجودہ صورت حال کو خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔کسی بھی پنٹنگ کو دیکھ کر اس کے موضوع کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے مگر کسی بھی فن پارے کو سمجھنے اور اس کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لئے لازمی ہے کہ پہلے اس کے موضوع کو دریافت کیا جائے ۔یہ اس لیے لازمی ہے کیونکہ ہر فن پارہ کسی خاص پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ فنکار کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تقاضوں کو پورا کرے اور فطرت کی ان لہروں کو بہتا ہوا دکھائے جو ان فن پاروں میں موجود  واقعات اور کرداروں کی ساخت پر داخت کرتی ہیں ۔
           ایک سٹوڈنٹ (ربیعہ) سے فائن آرٹس کے مستقبل کے بارے میں سوال کے جواب  میں انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں آرٹ کی کوئی قدر نہیں۔ آرٹسٹ کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک آرٹسٹ پوری زندگی اپنا ٹیلنٹ منوانے میںگزر جاتی ہے۔اس کی پوری زندگی اسی تغ و دو میں گزر جاتی ہے۔لیکن میں نے فائن آرٹس میں اپنے شوق کی وجہ سے داخلہ لیا تھا مجھے مستقبل کی پرواہ نہیں۔
           ایک اور سٹوڈنٹ (رمشاء ملک ) نے اتفاق رائے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب میں کام کر رہی ہوتی ہوں ہر ہمارے عزیز جب ملنے آتے ہیں تومیری بنائی ہوئی پینٹنگز کی قیمت لگانا شرو ع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے میری پینٹنگز کی قیمت دو یا تین ہزار لگائی۔ فن پاروں کی صحیح قدروقیمت بہت ہی کم لوگ سمجھتے ہیں۔
         اس کے علاوہ اتفاق رائے سے مزید سٹوڈنٹس نے گفتگو کی اور اپنے پروجیکٹس کو تفصیل سے بیان کیا۔ فائن  آرٹس کے سٹوڈنٹس نے مہمانوں کو بہت اچھے سے ویلکم کیا۔ اور اپنے فن پاروں سے متعلق سوالات کو اچھے انداز میں بیان کیا۔ تھیسز شو میں شرکت کرنے والی طلباء و طالبات میں وجیہہ غنی،رافیعہ شاہین،رمشاء ملک،ربیعہ زیب،سعدیہ زرین اور بشریٰ نذیرکے علاوہ دیگر سٹوڈنٹس نے بھی شرکت کی۔


Comments

Post a Comment